ریو اولمپکس میں حصہ لینے والے کئی کھلاڑیوں کی تصاویر میں ان کی جلد پر سرخ رنگ کے دھبے دیکھے گئے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں امریکی تیراک مائیکل فیلپس بھی شامل ہیں۔
یہ کیسے دھبے ہیں، اور کیوں ہر کوئی اچانک ان پر بات کرنے لگا ہے؟
ریو 2016 کے دوران تیراکی اور جمناسٹکس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں اور خاص طور پر امریکی ٹیم کے ارکان کی جلد پر یہ نشانات دیکھے گئے ہیں۔
مردوں کے4 بائی 100 میٹر فری سٹائل ریلے تیراکی کے مقابلے کے دوران امریکی تیراک مائیکل فیلپس کے جسم پر سرخ دھبے نمایاں تھے۔
اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر لوگ اس بارے میں اندازے لگانے لگے کہ شاید فیلپس پینٹ بال کھیل رہے تھے یا پھر ان پر کسی بڑے اوکٹوپس نے حملہ کیا ہے۔
تاہم یہ نشانات نہ تو پینٹ بال کے کھیل کی وجہ سے ہیں اور نہ ہی یہ ’لو بائٹس‘ ہیں۔ یہ اس قدیم طریقۂ علاج کا نتیجہ ہیں جسے ’کپنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے جلد پر گرم کپ رکھے جاتے ہیں۔
ایتھلیٹس کا کہنا ہے کہ وہ درد اور مستقل تربیت اور مقابلوں کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔
جمناسٹک کے امریکی کھلاڑی ایلکس نیڈور نے یو ایس اے ٹو ڈے کو بتایا کہ ’کپنگ ان طریقوں سے بہتر ہے جس پر میں نے پیسے خرچ کیے۔‘
ایلکس نیڈور نے امریکی جریدے کو مزید بتایا: ’یہ وہ راز ہے جس کا میں نے اس سال استعمال کیا اور اس نے مجھے صحت مند رکھا، اور مجھے شدید درد سے بچایا۔‘
اس تکنیک کو استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے پٹھوں کے مسائل، درد سے آرام، رات کو نیند نہ آنا وغیرہ جیسے کئی مسائل میں مدد ملتی ہے۔
مسٹر لانگ نے بتایا کہ کپننگ کا آغاز چین میں تین ہزار سال پہلے ہوا تھا، پھر یہ طریقہ مصر میں بھی مشہور ہونے لگا اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں۔
ایسا ہی ایک اور طریقہ بھی ہے جسے ’ویٹ کپننگ‘ کہا جاتا ہے جو چین اور بعض اسلامی ممالک میں رائج ہے اور وہاں اسے ’حجامہ‘ کہا جاتا ہے۔
حجامہ کے ذریعے جلد پر چھوٹا سا کٹ لگانے کے بعد کپ رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد بہت ہی کم مقدار میں خون باہر نکالا جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment